تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | ماہ رمضان کے اٹھارویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں’’اللّهمّ نَبّهْنی فيهِ لِبَرَكاتِ أسْحارِهِ، ونوّرْ فيهِ قلبی بِضِياءِ أنْوارِهِ، وخُذْ بِكُلّ أعْضائی الی اتّباعِ آثارِهِ، بِنورِكَ يا مُنَوّرَ قُلوبِ العارفين‘‘
خدایا! مجھے اس مہینے میں اس کی سحریوں کی برکتوں سے آگاہ کر اور میرے قلب کو اس کے انوار سے نورانی فرما اور میرے تمام اعضاء و جوارح کو اس کے نشانات کی پیروی پر مامور کر دے، تیرے نور کے واسطے اے عارفوں کے قلوب کو منور کرنے والے۔
’’اللّهمّ نَبّهْنی فيهِ لِبَرَكاتِ أسْحارِهِ‘‘۔ خدایا! مجھے اس مہینے میں اس کی سحریوں کی برکتوں سے آگاہ کر۔
فجر سے نزدیک وقت کو وقت سحر کہتے ہیں۔ تمام ادیان و ملل میں وقت سحر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس وقت کی برکتیں جہاں انسان کی روحانیت میں چار چاند لگاتی ہیں وہیں طبی اور حفظان صحت کے لحاظ سے بھی بے حد مفید ہیں۔
قرآن کریم نے بھی اس وقت کو خاص اہمیت اور عظمت سے ذکر کیا ہے۔ متقین کے خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے۔
’’وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ‘‘ (متقین) سحر کے ہنگام استغفار کیا کرتے تھے۔ (سورہ ذاریات، آیت ۱۸)
اسی طرح صاحبان ایمان کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ’’ وَالْمُسْتَغْفِـرِيْنَ بِالْاَسْحَارِ‘‘ وہ سحر کے ہنگام استغفار کرنے والے ہیں۔ (سورہ آل عمران، آیت ۱۷)
اسی طرح جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے مغفرت کی دعا کی درخواست کی۔
’’قَالُواْ يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ۔ قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ‘‘۔انہوں (برادران یوسف) نے (اپنے والد جناب یعقوب علیہ السلام سے) کہا اے ہمارے والد (خدا سے) ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کریں یقینا ہم خطاکار تھے۔ آپ ؑنے فرمایا میں عنقریب تمہارے لئے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کروں گا بے شک وہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (سورہ یوسف، آیت ۹۷، ۹۸) آیت سے واضح ہو رہا ہے کہ جناب یعقوبؑ نے اسی وقت دعا نہیں کی بلکہ روایت میں ہے کہ آپ نے وقت سحر کا انتظار کیا اور سحر کے وقت اپنے بیٹوں کے گناہوں کی بخشش کی دعا کی. جس سے اس وقت کی عظمت، فضیلت اور برکت کا اندازہ ہوتا ہے۔
قرآن کریم کے علاوہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں بھی کثرت سے اس جانب بشریت کو نصیحت اور ہدایت کی گئی ہے۔ روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمومنین علیہ السلام کو جو وصیتیں کی ۔ انمیں سے ایک وصیت یہ بھی تھی۔ ’’یا عَلِیُّ وَ بِالأسْحَارِ فَادْعُ لاتُرَدْ لَکَ دَعْوَۀٌ‘‘ اے علیؑ! سحر کے وقت (خدا سے) دعا کیا کرو ۔ اس وقت کی گئی دعا رد نہیں ہوتی۔ آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’وَ إنَّ اللهَ تَبارَکَ وَ تَعَالَی یَقُولُ وَ الْمُسْتَغْفِرینَ بِالْأَسْحارِ‘‘ اور بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا وہ سحر کے ہنگام استغفار کرنے والے ہیں۔ (سورہ آل عمران، آیت ۱۷)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’إِنَّ أَفْضَلَ مَا دَعَوْتُمُ اللَّهَ بِالْأَسْحَارِ. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَ بِالْأَسْحارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُونَ‘‘ بے شک اللہ سے دعا کا سب سے افضل وقت سحر کا وقت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ (صاحبان تقویٰ) سحر کے وقت دعا کرتے ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’خَیْرُ وَقْتٍ دَعَوْتُمُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فِیهِ الْأَسْحَار‘‘ اللہ تعالیٰ سے دعا کا بہترین وقت سحر کا وقت ہے۔ ’’وَ تَلَا هَذِهِ الْآیَةَ فِی قَوْلِ یَعْقُوبَ عَلَیهِ السَّلامُ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی وَ قَالَ أَخَّرَهُمْ إِلَى السَّحَر‘‘ اسکے بعد حضورؐ نے اس آیت کی تلاوت کی جسمیں جناب یعقوب علیہ السلام نے فرمایا میں تمہارے لئے دعا کروں گا اور دعا کو سحر تک موخر کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’إنَّ اللهَ جَلَّ جَلالُهُ فِی آخِرِ سَاعَۀٍ تَبْقَی مِنْ سَاعَاتِ اللَّیْلِ یَأمُرُ مَلِکاً یُنَادِیهِ‘‘ بے اللہ تبارک و تعالیٰ رات کے آخری حصے میں فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ وہ (ایسی)ندا دے۔ ’’وَ یُسمَعُ بَیْنَ الخَافِقَیْنِ‘‘ جو مشرق و مغرب میں سنائی دیتی ہے۔ وہ ندا یہ ہوتی ہے ۔ ’’ألَا! هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ یُغْفَرُ لَهُ‘‘ آگاہ ہو جاؤ! کیا کوئی استغفار کرنے والا ہے تا کہ اسے بخش دے۔ ’’ألَا هَلْ مِنْ تَائِبٍ یُتَابُ عَلَیْهِ‘‘ آگاہ ہو جاؤ! کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے جس کی توبہ قبول کر لی جائے۔ ’’أَلَا هَلْ مِنْ دَاعٍ خَیْرٍ یُسْتَجَابُ لَهُ‘‘ آگاہ ہو جاؤ! کیا کوئی دعا کرنے والا ہے تا کہ اس کی دعا مستجاب کی جائے۔ ’’هَلْ مِنْ سَائِلٍ یُعْطَى سُؤَالُهُ‘‘کیا کوئی سوال کرنے والا (مانگنے والا) ہے جسے عطا کیا جائے۔
مذکورہ روایات سے واضح ہو گیا کہ دعا، استغفار، توبہ اور سوال کا بہترین وقت سحر کا وقت ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت اللہ سے کیا سوال کرنا بہتر ہے ؟ تو مذکورہ آیات و روایات سے یہی ثابت ہوتا ہے اللہ سے مغفرت طلب کریں کیوں کہ استغفار سے جہاں آخرت میں سعادت نصیب ہوگی وہیں دنیا میں بھی کامیابی نصیب ہو گی۔
’’ ونوّرْ فيهِ قلبی بِضِياءِ أنْوارِهِ، ‘‘ اور میرے قلب کو اس کے انوار سے نورانی فرما ۔
جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے ’’اللّهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُواْ یُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوُرِ‘‘اللہ ان لوگوں کا ولی ہے جو ایمان لائے ۔ تو انہیں ظلمات (اندھیروں) سے نکال کر نور (روشنی) میں پہنچا دیتا ہے ۔ (سورہ بقرہ۔ آیت ۲۵۷)
گناہوں کے سبب انسان کے کان ، منھ ،زبان کی طرح دل پر بھی نافرمانی کا زنگ لگ جاتا ہے لہذا دعا کرنی چاہئیے کہ اللہ ہمارے وجود کو اپنی اطاعت کے نور سے منور کر دے۔
وخُذْ بِكُلّ أعْضائی الی اتّباعِ آثارِهِ۔ اور میرے تمام اعضاء وجوارح کو اس کے نشانات کی پیروی پر مامور کر دے۔
یہ اللہ پر توکل کی اعلیٰ منزل ہے کہ انسان کے جسم کے جملہ اعضاء اللہ کے فرمانبردار بن جائیں۔
بِنورِكَ يا مُنَوّرَ قُلوبِ العارفين. تیرے نور کے واسطے اے عارفوں کے قلوب کو منور کرنے والے.
منقول ہے کہ ایک شخص عظیم مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد علی اراکی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آیا اور نصیحت کی درخواست کی تو انہوں نے پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو؟ اس شخص نے کہا کہ میں نجّار (کارپینٹر) ہوں تو آپ نے فرمایا: اپنے دل کے لئے کوئی دروازہ بنایا ہے؟ اگر نہیں بنایا ہے تو دل کا دروازہ بناو۔
مرحوم مرجع تقلید نے اس نصیحت سے متوجہ کر دیا کہ اگر انسان اپنے دل پر دروازہ لگا دے تا کہ ہر کس و ناکس کا داخلہ نہ ہو۔ صرف اسمیں خدا ہو تو وہ قلب سلیم بن جائے گا۔